دن کی خدمت کون کرتا ہے کیا آپ کو معلوم ہے

ابهي رات ۲ بجے ہیں لگ بھگ
اور نیند نہیں آرہی ہے ؟

                            وجہ یہ ہے کہ 

احساس ہو رہا ہے عالموں کی کیا شان تھی لیکن آج کوئ بھی عالم جو دولت مند ہو کیا وہ عالم بن کر (کہیں امامت و خطابت یا درس و تدریس) کے کام کو پسند کرتا ہے ؟
۹٥% لوگ یہی جواب دینگے نہیں لیکن ایسا کیوں ؟
عالم کی زندگی پر تھوڑا نظر ڈالئے
جب حفظ کا دور ہوتا ہے تب فجر سے ظہر تک اور عصر کےبعد مغرب کے بعد عشاء کے دیر رات تک بس اتنا ہی نہیں بلکہ فجر سے پہلے بھی اس طرح پڑھائی کرنی ہوتی ہے کہ سر اونچا نہ ہو جائے
اور جب عربی کا وقت آتا ہے تو ١۰یا ١١یا ١۲ کتاب پہلی کلاس ہی میں تھمادی جاتی ہیں
اور جیسے جیسے آگے بڑھنا ہوتا ہے کتابیں بھی بڑھتی رہتی ہیں یہاں تک کہ بخاری اور مسلم جیسی مقدس کتابوں کو پڑھتے ہیں
اور پڑھائی کے دور میں کھانے کا تو کیا کہنا. ماشاء الله دنیاکی واحد قوم ہے جو کھانے کے بارے میں اتنا صبر کرتی ہے بلکہ جس دن یہ پڑھنے والے طالب علم گوشت اور بریانی وغیرہ کھاتے ہیں اس دن کو یہ اپنی عید تصور کرتے ہیں
اس کے بعد کیا ہوتا ہے بچہ کم سے کم ١٣سال پڑھنے کے بعد اب وہ سوچتا ہے میری ماں بیمار ہے میرے ابو بوڈھے ہو گئے ہیں میری چھوٹی بہن کی پڑھائی ہے میری بڑھی بہن کا نکاح بھی کرنا ہے اور بھی کئ ذمہ داری ہیں
کچھ کرتا ہوں
مگر کیا کروں
میں حافظ قرآن بھی ہوں عالم بھی ہوں فاضل بھی ہوں مگر کروں کیا ؟
سوچتا ہے امامت کروں لیکن معاوضہ ۸۰۰۰ہےیا ١۰۰۰۰ہے لیکن صبر کی انتہا دیکھئے وہ کہتا ہے ماشاء اللہ
اس کے بعد کیا ہوتا ہے. ارے امام صاحب نے ظہر نہیں پڑھی. تو. تو. تو تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہو سکتی
امام صاحب باہر کیوں گئے مسجد سے ؟
امام صاحب سنت نہیں پڑھتے
امام صاحب کے کپڑے. اوہو امام صاحب آپکو شرم نہیں آتی
امام صاحب رکوع لمبا سجدہ چھوٹا
ایسے بیشمار مسائل کیوں کیوںکہ آپکو ۸۰۰۰جو دے رہے ہیں
میرے بھائیو شرم کرو شرم یہ قوم اور کتنا ذلیل ہوگی بتاؤ مجھے
یاد کرو اللہ کے نبی نے فرمایا تھا.. العلماء ورثة الأنبياء
اور دین کے رہبر اور رہنما بتایا گیا تھا ان کو
اور ایک تقریر متولی کے خلاف کیا کردی. کہ نماز فجر پڑھنا ضروری ہے
فیصلہ ہوتا ہے مولانا صاحب آپ ٦اور٧گھنٹہ فون پر ہی لگے رہتے ہیں آپ مسجد کا خیال نہیں رکھتے
ادھر سے مولانا صاحب جواب دیتے ہیں معاف کردیجئے
ادھر متولی نہیں مولانا صاحب معافی نہیں اب چلے جایئے مسجد میں کوئی جگہ نہیں ہے
او ہو زمین پیر کے نیچے سے کھسک چکی ہوتی ہے کہ ایک ہفتہ بعد ماں کا اپریشن ہونا تھا
میرے بھائیو غور کرنا میری اس تحریر پر اور شرم کرنا
اتنا بڑا ظالم تو فرعون بھی نہ رہا ہوگا جتنے ظالم آج کے متولی ہوتے ہیں
علماء کی قدر کرو اور آپکو بتادوں آپکی آخرت کو برباد کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ علماء کی قدر نہیں کرتے. اور
کہ رہا ہوں جنون میں نہ جانے کیا کیا
کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی
اللہ علماء کی قدر کرنے اور ان سے استفادہ کی توفیق دے آمیں_

یہ صرف میں نے احساس لکھا اور آپ سے اصلاح کی امیدیں ہیں

از قلم _مولانا محمد آزاد حسین غزالی_

معذرت اگر پوسٹ میں غلطی ہو تو اگر سچائی ہے تو کمینٹ کریں

📝📝📝📝📝📝📝📝

وہابیوں کی حقیقت کو مولانا محمد آزاد حسین غزالی نے واضح طور پر بیان کردیا

(وہابیوں کی حقیقت)
وہابی دہشت گردوں کے پیشوا کا نام محمد بن عبد الوہاب تھا (جو 1703 عیسوی 1115ھجری) کو نجد میں پیدا ہوا تھا اب اس کا نام بدل کر ریال کر دیا ہے یہ آقا کریم صحابہ کرام اور اولیاء کرام کی تعظیم سے چڑھتا تھا 🌷اسنے کتاب التوحید نام کی کتاب لکھی ہے جسمیں اسنے نبی ولی کی خوب گستاخی توہین برائی کی اور قرآن حدیث کے خلاف جاکر خوب کفری عبارتیں لکھا اور اس میں مسلمانوں کی دو قسمیں بنائی (1 مواحید) (2 مشرک) جو لوگ ان کی منگڑتھ توحید کو مان لیتے ہیں اس وہ مواحید مسلمان قرار دیتا ہے اور باقی بچے سب مسلمانوں کو مشرک ٹہراکر انکو قتل کر نے اور لوٹنے کا فتویٰ دیتا تھا اس لیے شروع میں لوٹ مار کے شوقین اس کی جماعت میں شامل ہوئے یہ لوگوں کو سختی سے سر منڈانے کے لئے کہتا تھا اور اس نے درییہ کے سردار محمد بن سعود سے اپنی لڑکی کی شادی کر کے اس کو اپنا داماد بنالیا 🌷پھر داماد کو ساتھ لیکر تلوار کے زور پر اپنے عقیدے کو پھیلانا شروع کیا یہ پہلے آس پاس کے چھوٹے علاقے کو لوٹتا اور لوٹے ہوئے مال سے اپنی طاقت بڑھاتا(1773 عیسوی آتے آتے ین لوگوں نے پورے نجد پر قبضہ کر لیا پھر وہابی 28 سال تک اپنی طاقت کو بڑھاتے رہے اب وہابیوں کا فتنہ نجد یعنی ریاد کے باہر پھیلانے کے لئے تیار تھا🌷وہابیوں نے 1801 عیسوی میں عراق پر 1803 عیسوی میں مکہ شریف اور 1804 عیسوی میں مدینہ شریف پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا🌷اور بے قصور لوگوں سیدوں اور علماؤں کو قتل کیا اور کئی مقدس جگہوں کی بے حرمتی کی صحابہ اور اہلبیت کی شاندار مزار درگاہوں کو صرف شرک بدعت کے نام پر توڑ پھوڑ دیا🌷وہابیوں کی یہ حرکت پوری دنیا کے مسلمانوں کو ناگوار گزری اسوقت ترکی کا برٹین اور جرمنی کے ساتھ جنگ چل رہا تھا اس لیے ترکی کے بادشاہ نے مصر کے والی محمد علی پاشا کے پاس وہابیوں کے خلاف جہاد کا شاہی فرمان بھیجا🌷محمد علی پاشا نے ابراہیم پاشا کو اسلامی لشکر کا سردار بناکر عرب بھیجا جس نے وہابیوں کے لشکر کو 1818 عیسوی میں ہرا دیا اس طرح مکہ اور مدینہ شریف پر دوبارہ سنی مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا 🌷اسلامی لشکر کی اس کارروائی سے یورپ کے عیسائی ڈر گئے برٹین فرانس اور دوسرے دیش کو یہ بات بالکل اچھی نہیں لگی ان دیشوں نے مل کر ترکی سلطنت کو برباد کر ڈالا 🌷اب مکہ اور مدینہ شریف کی رکھوالی کرنے والا کوئی نہیں تھا میدان خالی دیکھ کر 1925 عیسوی میں عبد العزیز بن سعود نے برٹین کی سےمدد بندوق گولی بارود سے دوبارہ حملہ کر کے پورے حجاز پر قبضہ کر لیا دوبارہ خونی وہابیوں نے علماء اور نیک لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے🌷پھر جنت المالا اور جنت البقیع کے قبرستان میں جہاں پیارے آقا کے خاندان والے اور صحابہ کرام آرام فرما رہے تھے انکی قبروں پر ان وہابیوں نے بلڈوجر چلوا کر برباد کر دیا🌷اور مکہ شریف کی دوسری مقدس جگہوں پر جیسے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا گھر جسمیں آقا کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم پیدا ہوئے تھے اس کو شہید کر دیا گیا🌷اب یہاں لائبریری بنوا دی گئی ہے اور لگ بھگ 350 مسجد جیسے مسجدے جن مسجدے بوقبیس مسجدے نور وغیرہ کو شہید کر دیا گیا تب سے لیکر اب تک وہابیوں کا زبردستی قبضہ وہاں پر ہے 🌷حوالہ (تاریخ نجدو حجاز) خونی وہابیوں کے بارے میں دیوبندیوں کا عقیدہ دیوبندیوں کے پیشوا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں محمد بن عبد الوہاب کے ماننے والوں کو وہابی کہتے ہیں انکے عقائد عمدہ تھے البتہ مجاز میں شدت (دہشت گردی) تھی اور انکے مقتدی اچھے ہیں مگر ہاں جو حد سے بڑھ گئے (حوالہ فتویٰ رشیدیہ جلد 1صفحہ 280) اب آپ بتائیں کہ یہ وہابی فرقے کے لوگ مسلمان ہو سکتے ہیں اور ان کی تائید دیوبندیوں کے پیشوا اشرف علی تھانوی جن کو حکیم الامت کہا جاتا ہے وہ بھی کر رہے ہیں تو ایسے لوگوں کو کافر نہیں تو اور کیا کہا جائے گا 🌷سنی مسلمانوں ہوشیار ہو جاؤ اور ان سے بچو ورنہ پھر ہمیشہ رونا پڑے گا 😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭😭

مولانا محمد آزاد حسین غزالی کی تحقیقات ماہ رمضان کے مسائل پر حوالے کے ساتھ

مولانا محمد آزاد حسین غزالی رابطہ نمبر +917678092082

رمضان المبارک کے جدید مسائل:

آپ بھی پڑھیے اور دوسرے کے ساتھ شئیر کریں

مسئلہ: افطارکرنے کی دعا افطارکے بعدپڑھنا سنت ہے قبل افطار نہیں۔
(فتاوی رضویہ ج۴ص۶۵۱)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں گل اور منجن اور کولگیٹ کا استعمال سخت ممنوع ہے بعض صورتوں میں روزہ ٹوٹ بھی جاتا ہے۔(فیصلہ فقہی بورڈ)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں انار اور بانس کی لکڑی کے علاوہ ہر کڑوی لکڑی کی ہی مسواک بہتر ہے۔(ردالمحتار ج ۱ص۲۳۵)

مسئلہ: گلوز کا ڈراپ یا طاقت کا انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہ ہو گا اگر چہ بھوک پیاس ختم ہو جائے،ہاں اگر بھوک پیاس سے بچنے کے لئے ایسا کرے تو مکروہ ہے۔(مستفاداز فتاوی ہندیہ ج۱ص۲۰۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں۔(مستفادازشامی ج۲ص۳۹۵)

مسئلہ: بغیرسحری کے روزہ رکھنا جائز ہے۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۳)

مسئلہ: روزه کی حالت میں عطر لگانا،پھول سونگھنا،سرمہ لگانا، تیل لگانا،بال ترشوانا،موئے زیر ناف مونڈنا،بام لگانا،ویسلین یاکریم لگانا،تیل کی مالش کرنا یہ سب جائز ہیں ان سب چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(فتاوی مرکزی دارالافتاء بریلی شریف ص۳۵۸)

مسئلہ: سورج ڈوبنے کے بعدبلا تاخیر فوراً افطار کریں،اذان کا انتظار نہ کریں۔(فتاوی فیض الرسول ج۱ص۵۱۴)

مسئلہ: ماہ رمضان کی راتوں میں بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔(قرآن مجیدپ۲ رکوع۷)

مسئلہ: روزہ رکھنے کے لئے حائضہ عورت اگر ٹیبلیٹ کا استعمال کرے تو اس کا روزہ صحیح ہے البتہ اس کا یہ فعل جائز نہیں کہ بہت ساری بیماریوں کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔(مستفاد از ہدایہ اولین ص۶۳)

مسئلہ: روزہ کی حالت میں غسل کرنے یا احتلام سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بہار شریعت وغیرہ)

مسئلہ: عید ،بقرعیداورایام تشریق۱۱،۱۲،۱۳، ذی الحجہ کو روزہ رکھناحرام ہے۔(بہار شریعت ح۵ص۱۴۲)

مسئلہ: جو شخص روزہ نہ رکھے اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے کیونکہ صدقہ فطر کے وجوب کے لئے روزہ رکھنا شرط نہیں۔(شامی ج۲ص۷۶)

مسئلہ: ادائے رمضان کا روزہ اور نذر معین ونفلی روزہ کی نیت رات سے کرناضروری نہیں اگر ضحوۂ کبری یعنی دوپہر سے پہلے نیت کرلی تب بھی یہ روزے ہو جائیں گے اور ان تینوں روزوں کے علاوہ قضائے رمضان نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یارات میں کرنا ضروری ہے ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا(عالمگیری ج۱ص۱۳۸)

مسئلہ: حالت جنابت میں روزہ درست ہے۔اس سے روزے میں کوئی نقص وخلل نہیں آئے گا کہ طہارت باجماع ائمہ اربعہ شرط صوم نہیں ہے البتہ وہ شخص نمازیں قصدا چھوڑنے کے سبب اشد گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا۔(فتاوی رضویہ ج۴ ص۶۱۵)